Tuesday, December 28, 2021

بحیثیت استاد، سکول کا ایک یادگار دن

 

بحیثیت استاد، سکول کا  ایک یادگار دن

درویش کریم، آغاخان یونیورسٹی

Text Box: دور  د  راز اور آب و ہوا کے لحاظ سے سخت  ترین، لیکن ضلع استور کا  خوبصورت  ترین  گاؤں جو  ۷۰ گھرانوں اور ۴۰۰ نفوس پر مشتمل ہے۔کہتے ہیں کہ کسی بھی سکول کی تعمیر و ترقی کے لیے کئی عوامل مدد گار ہوتی ہیں، ان عوامل میں بچوں کے لیے بہتر اور مساوی تعلیم و تربیت کے مواقع ،  سکول میں بہتر نظم و نسق چلانے کے لیے  مضبوط لیڈرشپ،    تدریسی عملے کی موجودگی، موثر نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ غیر نصابی تعلیمی سرگرمیوں کا انعقاد،  والدین  کا اعتماد اورسکول کی سرگرمیوں میں  ان کی شمولیت ،  جس  کو یقینی بنانے کے لیے ایک فعال ایس ایم سی کی موجودگی، جو ہر وقت سکول کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیشہ  سکول کی مدد کے لیے تیار ہوں۔ اگر یہ تمام عوامل خواہ کسی گاؤں  میں  یا شہری سکول میں   پورا سال  مسلسل مہیا رہیں تو کوئی وجہ ہی نہیں کہ وہ سکول ترقی نہ کرسکے،  بچے معیاری تعلیم حاصل نہ کر سکیں، اور سکول معیاری تعلیم کا ادارہ نہ بن سکے۔

میں پچھلے دو سالوں سے ایک تعلیمی منصوبہ  جو گلگت بلتستان کے دور و دراز  علاقوں  میں خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم میں شراکت کے حق  اور اس میں اضافے  پر کام کر رہا ہے، کے ساتھ منسلک ہوں۔ یہ منصوبہ تعلیمی سال 2019-2020 کے دوران گلگت بلتستان کے  دو اضلاع، ضلع گھانچے اور  ضلع استور میں چلایا گیا۔ اس پہاڑی خطے میں سرکاری شعبے کی اسکولوں  میں تعلیم کو بہتر بنانے میں مدد  کے لئے  یہ منصوبہ تیار کیا گیا تھا۔  اس منصوبے کے مخصوص مقاصد  میں  اسکولوں کی ظاہری خدوخال کو جازب بنانا اور  سیکھنے سکھانے کے عمل کو مذید موثر  بنانا  کے ساتھ ساتھ معاشرتی تحریک  میں اضافہ کرنا اور اسکول کے سرگرمیوں میں والدین کی شرکت کو یقینی بنانا  شامل تھا۔  ان مقاصد کے حوصول کے لیے ایک جامع لائحہ عمل ترتیب دیا گیا ،جن میں اساتذہ  اکرام کی تربیت ، ایس ایم سی / ایم ایس جی کی تشکیل ۱ور ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے تربیت کے مواقع، سکولوں میں بچوں کو بیٹھنے کی سہولیات  کی کمی کو دور کرنے کے لیے  انڈر لے سمت  کارپٹ  اور چھوٹے گرانٹ کی فراہمی کے علاوہ تعلیمی وسائل کی فراہمی وغیرہ  بھی شامل تھیں۔

اس تعلیمی منصوبے کے مجموعی اثرات  ابھی  اسکولوں میں نظر آنا شروع  ہو گئی ہیں،  کیونکہ پروجیکٹ اسکولوں میں پہلی بار خود کے  بنائے ہوئے  اسکول ڈویلپمنٹ پلان آویزاں ہو  چکی ہیں اور اساتذہ تعلیمی سال کے آغاز سے ہی اس پلان  کی پیروی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ ، والدین کی شرکت پر  خاص توجہ  دی گئی ہے،  جس  کے نتیجے میں، پروجیکٹ اسکولوں میں والدین اور کمیونٹی  کا کردار بڑھ رہا ہے،  گھر اور اسکول کے تعلقات کو خاطر خواہ  فروغ  مل رہا ہے۔  ہم سمجھتے ہیں کہ کسی بچے  کو کامیابی حاصل کرنے  میں  مجموعی طور پر  پورا  گاؤں ، آس پاس کا ماحول اور  والدین کی مدد اور تعاون بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ آسان الفاظ میں خاندان ،  کمیونیٹی اور اسکول کا تعاون ہمیشہ بچے کی نشوونما  کے لیے بہت اہم ہیں۔ جب کنبے کے افراد اور کمیونیٹی  اسکول کے ساتھ سیکھنے والے طلباء و طالبات کے مدد  میں شامل ہوتے ہیں،  تو ، طلباء و طالبات اپنی تعلیمی کارکردگی اور سیکھنے کے نتائج میں بہتری لاتے ہیں۔ اسکولوں کے لئے کمیونٹی کی شمولیت ہمیشہ ہی توجہ کا مرکز رہی ہے اور مذکورہ پروجیکٹ نے بھی تعلیم میں بہتری کے لیے  اسی اہم طبقے پر توجہ مرکوز کیا۔ تاہم ، اس طبقے کی تعلیم میں شمولیت  ہمیشہ مختلف سیاق و سباق میں مختلف رہی ہے۔ کچھ اسکول کمیونیٹی کی شمولیت کے عمل میں بہت کامیاب  رہے ، جبکہ کچھ کو  کامیابی کے لئے مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔ اگر اسکول،  کمیونیٹی کو شامل کرنے میں کامیاب ہیں ، تو  طلباء و طالبات کی سیکھنے کے عمل میں تیزی کے ساتھ ساتھ ، روزمرہ کے معمولات اور تعلیمی عمل میں بہتری لانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ Text Box: اسکول کے اساتذہ بہت شوق سے کلاس کا مشاہدہ کررہے ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سیکھنے کی  بے حد چاہت رکھتے ہیں۔

اسی پروجیکٹ پر کام کے سلسلے میں مجھے اکثر سکولوں میں جانے کا موقع ملتا  رہا۔ اور مختلف کمیونیٹیز کے ساتھ کام کرتا  رہا ہوں۔ ایک بار مجھے گلگت بلتستان کےبہت ہی خوبصورت ضلع استور کے ایک  دور افتادہ   گاؤں  میں موجود  واحد  گورنمنٹ پرائمری اسکول میں جانے کا اتفاق ہوا۔  اسکول کے اندرمجھے کچھ سرگرمیوں کو پورا کرنے کی خاطر سارا دن رکنا پڑا۔ یہ دن  خوبصورت  اور یادگار دن تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ   اسکول کی تعمیر و ترقی کے لیے اسطرح کے دن اور سرگرمیاں  اگر  مسلسل جاری رہیں،  جو ماحول، جو سرگرمیاں اور جو تعلیمی نظارے سکول میں دیکھنے کو ملے وہ   یقیناً مثالی تھے۔  تو یہ اسکول علاقے کی بہترین اسکولوں میں سے ایک اسکول بن سکتا ہے۔

اساتذہ اکرام کے ساتھ میٹنگ۔

یہ مئی کا خوشگوار مہینہ تھا،    اکتوبر کے بعد سردیوں کی ٹھنڈک اور برف کے تہہ در تہہ سطحوں سے کچھ عرصہ پہلے ہی اس علاقے کو چٹکارہ مل چکا تھا۔ عموماً اس گاؤں میں سردیاں  اکتوبر سے شروع ہوتی ہیں اور اپریل تک برفباری اور سردی کا زور برقرار رہتا ہے۔ یوں سال میں قریباً سات مہینے ٹھنڈ کی راج رہتی ہے اور مئی کے مہینے سے کھیتی باڈی اور دیگر سرگرمیوں کا آغاز ہوتا ہے۔   اور موسم بہار کی خوبصورتی اپنی عروج پر  پہنچ جاتی ہے۔ آج کا دن ایک خوبصورت چمکتی  دھوپ کا دن تھا۔   اور سورج کی مدہم سی تپش زمین کو اور جسموں کو حرارت پہنچا رہی تھی۔ اسی طرح کے موسم میں دھوپ سینکنے کا مزہ ہی الگ ہوتا ہے۔ اس لیے گاؤں کے سارے بزرگ، خواتین و حضرات گھر سے باہر نکل کر دھوپ سے لطف اندوز ہو  رہے تھے، اور کچھ کھیتی باڈی میں مشغول تھے۔   چونکہ پرائمری اسکول میں ویسے بھی کلاس رومز کی کمی تھی تو اساتذہ اکرام نے  بھی تمام بچوں کو باہر دھوپ میں کلاس بندی کرائی ہوئی تھی اور دھوپ کے مزے لتے ہوئے تعلیم و تربیت  کا سلسلہ جاری تھا۔  اسی دوران میں سکول پہنچا۔  اساتذہ اور بچوں سے میری شنا سائی پہلے سے ہی تھی، لہذا  انہوں نےنہایت ہی گرامجوشی سے  مجھے خوش آمدید کہا۔

اسکول دورے کے کئ مقاصد تھے۔ جن میں سے اہم مقصد بچوں کے درمیان  آرٹ کا مقابلہ کروانا تھا۔ اور ایک دو اساتذہ کے کلاس کا مشاہدہ کرنا تھا۔ ان  مقاصد کے  حصول کے لئے ماحول خاصہ ساز گار تھا۔ لہذا میں نے اساتذہ کرام کے ساتھ مل کر کلاس تیسری، چوتھی، اور پانچویں سے کچھ طلباء و طالبات کو چُنا جو ڈرائنگ مقابلے میں حصہ لینے کے خواہش مند تھے۔ اُن کو ڈرائنگ میٹریل دے دیا اور ایک خاص موضوع  پر اپنا اپنا ڈرائنگ بنانے کے لئے کام پر لگا دیا۔ اسکے بعد متعلقہ استاد کے کلاس کا مشاہدہ اور ان کو فیڈ بیک دیا ۔  اسی دوران  سکول کی  تعلیمی  ماحول اور  عمل ایسے جازب ہو گئے تھے کہ دوسرے اساتذہ کرام کو بھی بلا کر میں نے ایک ڈیمو لیسن کا اہتمام کیا ۔ کلاس رومز کی کمی کی وجہ سے ہم نے پہلے ہی اساتذہ اکرام کو ملٹی گریڈ ٹیچنگ متعارف کروائی ہوئی تھی۔ اس لئے اسی انداز کے ٹیچنگ کے حوالے سے کلاس دوسری، تیسری، چوتھی اور پانچویں کے طلباء  کو ملا کر ملٹی گریڈ انداز کا ایک  ڈیمو لیسن لینا بڑا موثر رہا۔

ڈراَئنگ کے مقابلے میں انتہائی شوق کے ساتھ حصہ لینے والے طلباء و طالبات

  چھوٹا سا گاؤں  ہونے کی وجہ سے گھروں میں بھی میرے وہاں پہنچنے کی خبر پہنچ چُکی تھی۔ لہذا اسی دوران کچھ والدین اور ایس۔ایم۔سی ممبران بھی سکول تشریف لے کر آئے۔  سکول میں بچوں کو بیٹھنے کے لئے فرنیچر کی کمی کی وجہ سے چند دن پہلے ہی   سکول میں انڈرلے اور کارپٹ  ہم نے پہنچا دیا تھا۔  اور اسی کارپٹ اور انڈر لے کو کمروں میں لگانے کے لئے اساتذہ کی مدد کے لئے والدین آ گئے تھے۔   انہوں نے آتے ہی کلاسوں کا ناپ تول ، پھر کارپٹ کی کٹائی اور لگانے کا کام شروع کیا۔ یوں  سکول میں  ایسا مخلوط تعلیمی ماحول  اور سماء بنا کہ ایک طرف بچے ڈرائنگ میں مشغول ہیں،  تو دوسری طرف اساتذہ کرام ٹیچنگ /کو  ٹیچنگ اور ڈیمو لیسن لے رہے ہیں۔  اور اس وقت ہم سب کی یعنی اساتذہ کرام ،  والدین،   ایس ایم سی ممبران اور میری سوچ  غالباً یہی تھی کہ زیادہ سے زیادہ ہم بچوں کی سمجھ اور آگاہی کو کیسے بڑھا سکتے ہیں، ان کو ہم سب اپنی اپنی بساط کے مطابق کیسے تعلیم میں مدد اور ان کے لیے آسانیاں پیدا کر سکتے ہیں، تاکہ وہ اچھی تعلیم حاصل کر سکیں، اور کچھ نیا سیکھ  سکیں۔   

اسکول انتظامیہ کی مدد کے لئے کمیونٹی کی فعال شمولیت کا ایک انداز۔

جب والدین اور ایس۔ ایم۔سی اپنا کام کر چکے تو اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے پروجیکٹ کے حوالے سے اور بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے ان کے ساتھ  نشست کا اہتمام کیااور  یہ ایک عمدہ نشست  رہی، جس میں تعلیم کی اہمیت، بچوں کو سکول صاف صفائی کے ساتھ بیجنے اور گھرپر سکول کا کام کی نگرانی  کے حوالے سے بات چیت کی۔ اسی دوران ڈرائنگ میں مصروف بچوں کے پاس بھی جاتا رہا۔  اور ان کے کام کے حوالے سے ان کو مدد اور رہنمائی فراہم کرتا رہا۔  والدین اور ایس۔ ایم۔سی سے فارغ ہو کر مختلف کلاسز میں  بچوں  اور بچیوں کے ساتھ ان  کے کام  میں مدد فراہم کرتا رہا۔  اور آخر میں تمام اساتذہ  اکرام کے ساتھ میٹنگ کی جس میں سکول کے تعلیمی نظام کو اور بہتر کرنے  پر  گُفت و شنید کی۔ والدین کی شمولیت کو اور موثر بنانے اور کلاس میں ٹیچنگ کے انداز کو مزید پر کشش بنانے پر بات چیت کی۔ پھر بچوں سے اُن کا ڈرائنگ کا کام جمع کیا ۔ اور بچوں کو اس سرگرمی میں  شوق کے ساتھ حصہ لینے  پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ اس وقت بچوں کی خوشی حقیقت میں دیدنی تھی۔الہذالقیاس،   گاؤں میں موجود واحد پرائمری سکول کی تعلیم و تربیت کا معیار، والدین کی شمولیت،  نصابی و غیر نصابی سرگرمیاں  اور خاص طور پر کثیرالجماعتی تدریس کے حوالے سے تعلیم و تدریس  کے معیار کو جب ایک ساتھ وقع پذیر ہوتے ہوئے دیکھا تو مجھے ایسا لگا کہ آج کا دن ایک خوبصورت ترین  اور یاد گار دن ہے۔  جب میں ان تمام سرگرمیوں کو مکمل کر کے  سکول سے نکل رہا تھا تو ایک بچی کے یہ  الفاظ اور ذیادہ خوش کر گئے۔  اُس بچی نے پوچھا کہ "سر آج سکول میں بہت مزہ آیا ۔ اور سر آپ پھر کب آئیں گے"۔  انہی الفاظ کی چاشنی کو دل میں  محسوس کرتے ہوئے سکول سے اور خوبصورت گاؤں سے  روانہ ہوتے ہوئے  تمام  اساتذہ کرام اور بچوں کا شکریہ ادا کیا اور ایک احساس ا طمنان کے ساتھ  روانہ ہو گیا۔

طلباء طالبات اپنےاپنے ڈرائنگ کے ساتھ

No comments:

Post a Comment

THE KNEE JOINT PAIN IN GILGIT-BALTISTAN - AN URGENT CALL TO ACTION

  THE KNEE JOINT PAIN IN GILGIT-BALTISTAN - AN URGENT CALL TO ACTION Darvesh Karim   Attending a recent social gathering in Gilgit-Bal...